Admissions | parties may resile all admissions except made in the pleadings.
![]() |
| parties may resile all admissions except made in the pleadings |
Must read Judgement
عدالت میں اعترافات
(Admissions) سے رجوع: قانونی اصول اور عدالتی نظیر
عدالتوں میں دائر مقدمات میں فریقین کی جانب سے کیے گئے اعترافات (Admissions) ایک اہم قانونی پہلو ہوتے ہیں۔ اکثر یہ سوال اٹھتا ہے کہ آیا فریقین اپنے کیے گئے اعترافات سے رجوع کر سکتے ہیں یا نہیں؟ اس حوالے سے قانون شہادت آرڈر 1984 (Qanun-e-Shahadat Order 1984) اور حالیہ عدالتی نظائر راہنمائی فراہم کرتے ہیں۔
اعترافات کی اقسام اور قانونی حیثیت
قانون شہادت آرڈر 1984 میں اعترافات کو دو اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے:
-
درخواستوں میں کیے گئے اعترافات (Pleadings Admissions)
- آرٹیکل 113 کے تحت جو اعترافات دعویٰ (Plaint) یا جواب دعویٰ (Written Statement) میں کیے گئے ہوں، وہ حتمی ہوتے ہیں۔
- ان اعترافات سے رجوع ممکن نہیں، کیونکہ یہ فریقین کے مؤقف کو واضح کرتے ہیں اور مقدمے کی بنیاد بنتے ہیں۔
-
بطور شہادت دیے گئے اعترافات (Evidentiary Admissions)
- آرٹیکل 45 کے تحت وہ اعترافات جو کسی بیان، گواہی، یا کسی اور ثبوت کی شکل میں عدالت میں پیش کیے گئے ہوں، وہ بعض مخصوص حالات میں ناقابل قبول ہو سکتے ہیں۔
- اگر یہ اعترافات کسی غیر قانونی طریقے سے حاصل کیے گئے ہوں یا قانونی تقاضے پورے نہ کرتے ہوں تو انہیں رد کیا جا سکتا ہے۔
حلف کے بغیر گواہی کی حیثیت
عدالت میں گواہی دیتے وقت حلف (Oath) دینا ایک لازمی قانونی تقاضا ہے۔ اگر کسی گواہ کا بیان بغیر حلف کے ریکارڈ کیا جائے تو وہ ناقابل قبول شہادت (Inadmissible Evidence) شمار ہوگا۔ عدالت نے اس حوالے سے واضح کیا ہے کہ:
- عدالت پر لازم ہے کہ وہ ہر گواہ کا بیان حلف کے ساتھ ریکارڈ کرے۔
- بغیر حلف کے دی گئی گواہی کسی فریق کے خلاف استعمال نہیں ہو سکتی۔
- یہ ایک بنیادی غیر قانونی عمل (Illegality) ہے جسے درست نہیں کیا جا سکتا۔
عدالتی نظیر: W.P. No.234510 of 2018
حالیہ کیس محمد عامر بنام ممبر (J-VII)، بورڈ آف ریونیو، وغیرہ (W.P. No.234510 of 2018) میں لاہور ہائیکورٹ نے درج ذیل اصول طے کیے:
-
ہائیکورٹ نے قرار دیا کہ جو اعترافات دعویٰ یا جواب دعویٰ میں کیے گئے ہوں، وہ حتمی ہوتے ہیں اور فریقین ان سے رجوع نہیں کر سکتے، جبکہ بطور شہادت دیے گئے اعترافات بعض مخصوص حالات میں ناقابل قبول ہو سکتے ہیں۔
-
ہائیکورٹ نے مزید قرار دیا کہ اگر کسی گواہ کا بیان بغیر حلف کے ریکارڈ کیا جائے تو وہ ناقابل قبول شہادت شمار ہوگا اور کسی فریق کے خلاف استعمال نہیں ہو سکتا۔
-
عدالت نے یہ بھی واضح کیا کہ ہر گواہ کا بیان حلف کے ساتھ ریکارڈ کرنا عدالت کی قانونی ذمہ داری ہے، بصورت دیگر ایسی گواہی کو شہادت کے طور پر تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔
نتیجہ
یہ عدالتی فیصلہ قانون شہادت 1984 کے اصولوں کو مزید واضح کرتا ہے اور وکلاء اور فریقین کے لیے ایک راہنمائی فراہم کرتا ہے کہ:
✅ جو اعترافات دعویٰ یا جواب دعویٰ میں کیے جائیں، وہ واپس نہیں لیے جا سکتے۔
✅ بطور شہادت دیے گئے اعترافات بعض شرائط کے تحت ناقابل قبول ہو سکتے ہیں۔
✅ حلف کے بغیر ریکارڈ شدہ گواہی کو عدالت میں تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔
یہ اصول نہ صرف عدالتی کارروائی میں شفافیت اور انصاف کو یقینی بناتے ہیں بلکہ فریقین کو اپنی قانونی حکمت عملی ترتیب دینے میں بھی مدد دیتے ہیں۔

No comments:
Post a Comment