Inheritance law of limitation involving matter of inheritance
Must tead Judgement
وراثت میں شریک ورثاء کے حقوق اور قانونِ تحدیدات
وراثت ایک ایسا قانونی و شرعی معاملہ ہے جس میں اکثر تنازعات جنم لیتے ہیں، خاص طور پر جب کسی شریک وارث (Co-sharer) کے حقوق اور قبضے کا سوال اٹھتا ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے مقدمہ "فیض اللہ بنام دلاور حسین" (2022 SCMR 1647) میں ایک اہم اصول طے کیا گیا، جس کا تعلق شریک ورثاء کے حقوق، قبضے، اور قانونِ تحدیدات (Limitation) سے ہے۔
شریک ورثاء کی ملکیت اور قبضہ
جب کسی مسلمان کا انتقال ہوتا ہے تو اس کی جائیداد کے تمام قانونی ورثاء بیک وقت مالک اور شریک بن جاتے ہیں۔ کسی ایک شریک وارث کا جائیداد پر قبضہ درحقیقت تمام شرکاء کا مشترکہ قبضہ سمجھا جاتا ہے۔ یعنی، اگر جائیداد پر کسی ایک شریک کا کنٹرول ہے تو باقی شرکاء کے حقوق ختم نہیں ہوتے، بلکہ وہ اب بھی اپنے حصے کے حق دار رہتے ہیں۔
یہاں تک کہ اگر کوئی شریک علامتی قبضہ (Symbolic Possession) رکھتا ہو، تب بھی اس کے حقوق محفوظ رہتے ہیں۔ اس اصول کا مقصد یہ ہے کہ کسی بھی شریک کو اس کے جائز حق سے محروم نہ کیا جائے۔
قانونِ تحدیدات (Limitation) اور وراثت
عمومی طور پر، شریک ورثاء کے حقوق پر کوئی حد بندی لاگو نہیں ہوتی، اور وہ کسی بھی وقت اپنا حقِ وراثت طلب کر سکتے ہیں۔ تاہم، عدالت نے واضح کیا کہ کچھ خاص حالات میں قانونِ تحدیدات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
اگر مورث (متوفی) نے اپنی زندگی میں جائیداد فروخت کر دی، ھبہ (Gift) کر دی، یا کسی اور طریقے سے منتقل کر دی اور اس کے انتقال کے کافی عرصے بعد ورثاء اس منتقلی کو چیلنج کریں، تو اس پر قانونِ تحدیدات (Limitation) لاگو ہو سکتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر کوئی وارث بغیر کسی معقول وجہ کے تاخیر سے دعویٰ دائر کرے، تو عدالت اس کے دعوے کو رد کر سکتی ہے۔
عدالتی نظیریہ اور عملی اثرات
اس فیصلے کا سب سے بڑا اثر یہ ہے کہ شریک ورثاء کے حقوق کو تحفظ دیا گیا ہے، لیکن غیر معقول تاخیر کی صورت میں قانونِ تحدیدات نافذ ہو سکتا ہے۔ اس لیے اگر کسی وارث کو جائیداد کے کسی غیرقانونی انتقال یا تقسیم پر اعتراض ہو، تو اسے فوری طور پر قانونی کارروائی کرنی چاہیے، ورنہ وہ اپنے حق سے محروم ہو سکتا ہے۔
نتیجہ
یہ عدالتی فیصلہ وراثت کے معاملات میں شریک ورثاء کے حقوق اور قانونِ تحدیدات کی اہمیت کو واضح کرتا ہے۔ کسی بھی وراثتی جائیداد میں شریک افراد کو چاہیے کہ وہ اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے بروقت اقدامات کریں، تاکہ بعد میں قانونی پیچیدگیوں اور ممکنہ ناکامیوں سے بچا جا سکے۔

No comments:
Post a Comment