Haqmahar and khazanat
![]() |
| Haqmahar and khazanat |
ماں کے حقِ حضانت اور عورت کے حقِ مہر پر سپریم کورٹ کا اہم فیصلہ
پاکستان میں خاندانی قوانین اور اسلامی اصولوں کے تحت ماں کو اپنے بچوں کی حضانت اور عورت کو اپنے مہر کا مکمل حق حاصل ہے۔ تاہم، بعض اوقات خواتین کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے ان حقوق سے دستبردار ہو جائیں، جو نہ صرف اسلامی احکام کے خلاف ہے بلکہ ملکی قوانین کی بھی صریح خلاف ورزی ہے۔ حال ہی میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے PLD 2024 SC 291 میں ایک تاریخی فیصلہ دیا، جس میں واضح طور پر کہا گیا کہ:
1. ماں کی جانب سے اپنے بچوں کی حضانت سے دستبرداری غیر قانونی ہے۔
2. عورت کے مہر کے حق سے دستبرداری کا کوئی معاہدہ قابلِ قبول نہیں ہوگا۔
یہ فیصلہ نہ صرف قانونی لحاظ سے بلکہ سماجی نقطہ نظر سے بھی انتہائی اہم ہے، کیونکہ اس سے خواتین کے بنیادی حقوق کے تحفظ کو مزید تقویت ملتی ہے۔
---
حقِ حضانت (Hizanat) اور اس کی قانونی حیثیت
اسلامی قوانین اور محمدن لا (Muhammadan Law) کے تحت ماں کو اپنے بچوں کی حضانت کا فطری اور قانونی حق حاصل ہوتا ہے۔ قانون کے مطابق:
بیٹے کی حضانت ماں کو سات سال کی عمر تک حاصل ہوتی ہے۔
بیٹی کی حضانت ماں کو بلوغت تک حاصل رہتی ہے۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں PLD 2020 SC 508 کے حوالے سے کہا کہ کوئی بھی معاہدہ جس کے تحت ماں اپنی حضانت کے حق سے دستبردار ہو، غیر قانونی اور غیر مؤثر ہوگا۔ ایسے معاہدے اسلامی اصولوں اور ملکی قوانین کے خلاف ہونے کی وجہ سے نافذ العمل نہیں ہو سکتے۔
عدالت نے واضح کیا کہ کسی بھی ماں کو اس کے بچوں کی حضانت سے زبردستی محروم نہیں کیا جا سکتا، اور اگر کوئی شخص یا خاندان ایسا معاہدہ کروانے کی کوشش کرے تو وہ قانوناً کالعدم ہوگا۔
---
عورت کے حقِ مہر سے متعلق قانونی مؤقف
اسلام میں مہر (Dower) عورت کا بنیادی حق ہے، جو شوہر پر فرض ہے۔ یہ حق قرآن مجید اور ملکی قوانین میں بھی تسلیم کیا گیا ہے۔ اس فیصلے میں سپریم کورٹ نے کہا کہ:
مہر ایک ایسا حق ہے جسے شوہر پر عورت کی مالی مدد اور استحکام کے لیے لازم قرار دیا گیا ہے۔
کوئی بھی معاہدہ/اقرار نامہ، چاہے وہ رجسٹرڈ ہو یا غیر رجسٹرڈ، اگر اس کا مقصد عورت کو مہر کے حق سے محروم کرنا ہے، تو وہ غیر قانونی ہوگا۔
اگر میاں بیوی کے درمیان علیحدگی ہو رہی ہو اور کوئی معاہدہ عورت کے مہر کے حق کو ختم کرنے کے لیے بنایا جائے تو وہ قانونی لحاظ سے ناقابلِ قبول ہوگا۔
یہی نہیں، بلکہ عدالت نے سیکشن 23، کانٹریکٹ ایکٹ کے تحت بھی وضاحت کی کہ اگر کوئی معاہدہ عوامی پالیسی (Public Policy) کے خلاف ہو، تو وہ خود بخود کالعدم ہو جاتا ہے۔
---
یہ فیصلہ کیوں اہم ہے؟
یہ فیصلہ پاکستان میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایک بڑا سنگِ میل ثابت ہو سکتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں بعض اوقات خواتین کو قانونی کمزوریوں اور خاندانی دباؤ کے تحت مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے حقوق سے دستبردار ہو جائیں، جو کہ سراسر ناانصافی ہے۔ یہ فیصلہ درج ذیل وجوہات کی بنا پر نہایت اہمیت رکھتا ہے:
1. ماں کے حقِ حضانت کا تحفظ: کسی بھی عورت کو زبردستی اس کے بچوں کی حضانت سے محروم نہیں کیا جا سکتا، اور کوئی بھی ایسا معاہدہ قانونی طور پر غیر مؤثر ہوگا۔
2. عورت کے حقِ مہر کا تحفظ: کوئی بھی دستاویز یا اقرار نامہ جو عورت کو اس کے حقِ مہر سے محروم کرے، ناقابلِ قبول ہوگا۔
3. خواتین کے قانونی شعور میں اضافہ: یہ فیصلہ خواتین کو اپنے حقوق سے آگاہ ہونے میں مدد دے گا اور انہیں یہ سمجھنے کا موقع فراہم کرے گا کہ وہ کسی بھی دباؤ کے تحت اپنے حقوق سے دستبردار ہونے پر مجبور نہیں ہیں۔
---
نتیجہ
یہ فیصلہ خواتین کے بنیادی حقوق کے تحفظ میں ایک اہم پیش رفت ہے۔ ماں کے لیے اپنے بچوں کی حضانت اور عورت کے لیے مہر ایک ناقابلِ تردید حق ہے، جسے کوئی بھی معاہدہ ختم نہیں کر سکتا۔ اس فیصلے کے بعد، خواتین کو چاہیے کہ وہ اپنے قانونی حقوق سے مکمل طور پر آگاہ رہیں اور اگر کوئی ان کے حقوق سلب کرنے کی کوشش کرے تو وہ عدالت سے رجوع کریں۔
یہ عدالتی فیصلہ نہ صرف قانونی استحکام فراہم کرتا ہے بلکہ اسلامی اصولوں کی روشنی میں بھی خواتین کے حقوق کو مزید مضبوط بناتا ہے۔
Must read judgement
PLD 2024 SC 291
ایسا اقرار نامہ جو والدہ کے اپنے بچوں کے حق حضانت سے دستبرداری کی بابت ہو سراسر غیر قانونی ہے
The delivery of Mahr is one such right, the dutY of which is bestowed upon the husband for the financial support and stability of his wife. Such entitlement to dower has the origin in the HoIy Quran, and the inspiration of the same entitlement has been made part of the statutory law.
Para 352 (5) of the Muhammadan Law provides that the mother is entitled to the custody (Hizanat) of her male child until he has completed the age of seven years and of her female child until she has attained puberty. These rights cannot be denied to her as any such action would be contrary to law. Any agreement related to the custody of minor child would be violative of law and cannot be enforced by a Court of law. This Court in a reported case titled Mst. Beena v. Raja Muhammad and others [PLD 2020 SC 508], at paragraph 8, held that the agreement where mother surrendered the custody of her child or the agreement which stopped the mother to claim his custody is not lawful; it is contrary to the Islamic principles governing Hizanat and the law determining the custody of minors and thus forbidden. An agreement the object or consideration of which is against public policy is void, as stipulated in section 23 of the Contract Act.
It is imperative that the wife must be made a party to the agreements concerning her rights. A wife enjoys exclusive and absolute right over her dower and the same could not be waived via lqrarnama/ Agreement/Compromise and any such document, registered or unregistered, attempting to compromise the wife’s right to dower, especially in the context of familial dissolution, lacks legal validity. Further, any Iqrarnama/ Agreement/Compromise made by the mother waiving her statutory right of Hizanat of a minor child would be violative of law and cannot be enforced by a Court of law.
Family/Maintenance Allowance
C.A.1227/2016
Mst. Haseena Bibi v. Abdul Haleem & others
Popular articles

No comments:
Post a Comment